Wednesday 8 May 2013

بددعا کی قبولیت کا اندوہناک واقعہ

 
اس بچے نے کوئی ایسی شرارت کی کہ اس کی ماں کی برداشت سے یہ شرارت باہر تھی۔ بس… پھر کیا تھا ماں آپ سے باہر ہوگئی اور لگی بددعائیں دینے۔ اللہ کرے تو اس کھڑکی سے نیچے گلی میں گر کر مرجائے۔ آہ…!!! شاید یہی منحوس گھڑی کہ اس کی بددعا قبول ہوگئی

بچوں اور ماؤں بہنوں اور والدین کیلئے عبرت انگیز واقعہ جو کہ پشاور کے ایک بازار کریم پورہ کا ہے۔ واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے تجربے کی بات بتادوں‘ دُعا اور بددعا کے اثرات ضرور بالضرور وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ چاہے فوراً اسی وقت یا کچھ دیر بعد… اسی لیے بڑوں نے کہا ہے کہ ہر وقت اچھا سوچنا چاہیے اور کسی کے متعلق جو کچھ کہنا ہو اچھا ہی کہنا چاہیے اور اپنے آپ کو اور اپنی زبان کو بددعا سے بچانا اور روکے رکھنا اس میں آپ ہی کی بھلائی چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ بددعا کے بدلے دعا دینا قبولیت کی منتظر رہتی ہے۔ کوئی بھی وقت قبولیت کا ہوسکتا ہے جیسا کہ جو میںبیان کرنے والا ہوں وہ مائیں‘ بہنیں اور باپ ۔۔۔اگر ان کو بددعا کی عادت ہے تو شاید کہ ان کے دلوں میں میری تحریراتر جائے اور مجھے بھی اس نیکی کا اجرو ثواب ملے اور آئندہ سے بددعا کی لعنت سے بچنے کی کوشش کریں۔ اپنے لیے‘ میرے لیے اور سب کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرنے میں بخل سے بالکل بھی کام نہ لیں شکریہ۔
 
جیسا کہ میں پہلے تحریر کرچکا ہوں کہ بازار کریم پورہ چونکہ یہ آبادی ہندوؤں کی تھی تو تقسیم کے بعد مہاجر جو کہ یہاں آئے تو ان مہاجرین کو یہ مکا نات الاٹ کیے گئے۔ تین چار منزلہ عمارتیں تو عام ہیں ان میں ایک چار منزلہ عمارت میں شادی ہورہی تھی۔ گھر میں ہر طرف خوشی کا اظہار ہورہا تھا‘ بچے‘ بچیاں سبھی اپنے اپنے مزاج کے مطابق خوشیوں کا برملا اظہار کررہے تھے۔ ایک بچہ ان تمام بچوں میں سب سے زیادہ شرارتی تھا۔ تھوڑی تھوری دیر بعد اس بچے کی ماں کو شکایت کی جاتی۔ بچہ بڑا صحت مند اور خوش شکل تھا جس کمرے میں سب بیٹھے تھے ۔بچے کھیلتے کھیلتے اس کمرے میں پہنچ گئے۔ بچوں نے اس کمرے کو اپنا کھیل کا میدان بنالیا اور لگے شرارتیں کرنے۔ اب بچے کی ماں دیکھ ہی تھی کہ اس بچے نے کوئی ایسی شرارت کی کہ اس کی ماں کی برداشت سے یہ شرارت باہر تھی۔ بس… پھر کیا تھا ماں آپے سے باہر ہوگئی اور لگی بددعائیں دینے۔ اللہ کرے تو اس کھڑکی سے نیچے گلی میں گر کر مرجائے۔ آہ…!!! شاید یہی منحوس گھڑی کہ اس کی بددعا قبول ہوگئی اور آناً فاناً چار پانچ سالہ بچہ پلک جھپکتے ہی جیسے کسی نادیدہ طاقت نے اسے اٹھایا اور کھڑکی سے باہر گلی میں پھینک دیا۔ حالانکہ کھڑکی اس بچے کے قد سے دُگنی اونچی تھی۔ آہ…!!! اس بددعا دینے والی ماں کا حال قابل دید تھا۔ اب پچھتائے کیا ہوت…!!! شادی کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔
 
دس پندرہ دنوں کے بعد وہ ماں بھی بچے کا غم لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ ایسا غم اللہ کسی کو نہ دکھائے۔
 
میری تمام بہنوں اور ماؤں اور والد صاحبان سے گزارش ہے کہ اپنی زبانوں کو قابو میں رکھیں تو بہتر ہے۔ اللہ مہربان ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment