Thursday 17 April 2014

اولاد کے حق میں ماں کی دُعا

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمتہ اللہ علیہ کا نام نامی اسم گرامی ہم میں سے کس نے نہیں سنا ہے۔ 86سال کی عمر میں ابھی چند سال قبل 31دسمبر 1999ءکو رمضان کی 23تاریخ کو آپ کا انتقال ہوا۔ اللہ نے آپ سے دین کا وہ کام لیا جس کی نظیر ماضی قریب کی اسلامی تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی محبوبیت اور مقبولیت عطا فرمائی تھی۔ عنداللہ آپ کے مقبول و محبوب ہونے کے دسیوں قرائین پائے جاتے تھے۔ جمعہ کے دن، روزہ کی حالت میں، عین نماز جمعہ سے قبل، سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ دنیا کے تقریباً تمام براعظموں اور اہم ممالک میں آپ کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی گئی۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو حرم مکی و مدنی یعنی حرم شریف اور مسجد نبوی میں ستائیں لاکھ سے زائد اللہ کے بندوں نے آپ کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی اور آپ کی مغفرت و رفع درجات کیلئے اللہ سے دعائیں کیں۔ اس طرح کی عنداللہ محبوبیت و قبولیت دنیا میں بہت ہی کم بندوں کے حصہ میں آتی ہیں۔ مولانا اپنے بچپن میں پڑھنے میں نہ بہت ذہین تھے اور نہ بہت چست و چالاک۔آپ کی علمی صلاحیت بھی مدرسہ میں عام اور درمیانہ درجہ کے طالب علم کی تھی۔ اس کے باوجود آپ سے اللہ نے دین کا جو کام لیا وہ حیرت انگیز بھی تھا اور تعجب خیز بھی۔ حضرت سے جب ان کو حاصل ہونے والی اس توفیق خداوندی کے اسباب و محرکات کے متعلق دریافت کیا جاتا تو آپ بیان کرتے کہ اللہ نے ہمارے مقدر میں دین کی اس خدمت میں ہماری والدہ ماجدہ کی خصوصی دعاﺅں کا بڑا حصہ رکھا تھا، یہ اسی کی برکت تھی۔ آپ کی والدہ بڑی عابدہ‘ زاہدہ اور ذاکرہ تھیں۔ 93سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ وہ اپنی وفات تک ہمیشہ روزانہ دو رکعت صلاة الحاجة پڑھ کر اپنے اس بیٹے کیلئے دعا کرتی تھی کہ اے اللہ: میرے نور نظر علی سے کوئی غلط کام نہ ہو‘ زندگی کے ہر موڑ پر اے اللہ تو ہی اس کی صحیح رہنمائی فرما۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ علی: روزانہ اپنے معمولات میں اس دعا کو شامل کرنا” اے اللہ تو مجھے اپنے فضل سے اپنے نیک بندوں کو دیئے جانے والے حصوں میں سے افضل ترین حصہ عطا فرما۔“ اَللّٰہُمَّ آتِنِی بِفَضلِکَ اَفضََلَ مَاتُوتِی عِبَادَکَ الصَّالِحِینَ آپ کی والدہ نے آپ کی ولادت سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر انہوں نے خود اپنی وفات سے قبل دیکھی۔ خواب یہ تھا کہ ہاتف غیبی نے ان کی زبان پر قرآن کی اس آیت کو جاری کر دیا ہے کہ” ہم نے تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے جو مخفی خزانہ چھپا کر رکھا ہے اس کا تمہیں اندازہ نہیں“۔ فَلَا تَعلَمُ نَفس مَّآ اُخفِیَ لَہُم مِّن قُرَّةِ اَعیُنٍ (سورہ سجدہ آیت نمبر 17)مولانا کی انہوں نے اس طرح تربیت فرما ئی تھی کہ ان سے اگر کسی خادم یا ملازمہ کے بچہ پر زیادتی ہوتی تو نہ صرف معافی منگواتی بلکہ ان سے مار بھی کھلاتیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ بچپن ہی سے مولانا کو ظلم اور غرور و تکبر سے نفرت اور کسی کی دل آزاری سے وحشت ہو گئی۔ عشاءکی نماز پڑھے بغیر اگر سو جاتے تو اٹھا کر نماز پڑھواتیں۔ صبح کو جماعت کے ساتھ نمازپڑھنے کیلئے بھیجتیں۔ فجرکے بعد کبھی تلاوت کا ناغہ نہیں ہونے دیتی تھیں۔ مندرجہ بالا واقعات کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لیں تو شاید ہی ہم میں سے دو فیصد والدین اس کے مطابق اپنے آپ کو پائیں۔ روزانہ صلاة الحاجة پڑھ کر اپنی اولاد کیلئے مانگنا تو دور کی بات زندگی بھر میں اللہ سے اپنی اولاد کی نیک نامی اور صلاح مانگنے کیلئے ہم نے ایک بار بھی صلاة الحاجة نہیں پڑھی ہو گی۔ جب کہ اللہ نے ہمیں اپنی اولاد کی بھلائی و نیک نامی کیلئے مانگنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے اور اس کے آداب بھی بتائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ” اپنی اولاد کیلئے تم مجھ سے اس طرح مانگو کہ اے اللہ ہمیں ایسی بیویاں اور بچے عطا فرما جو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہو ں اور ہمیں متقین کا امام بنا“۔ رَبَّنَا ھَب لَنَا مِن اَزوَاجِنَا وَذُ رَِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعیُنٍ وَّاجعَلنَا لِلمُتَّقِینَ اِمَامًا(سورئہ فر قان آیت نمبر 74)اے اللہ: خود مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی‘ اے اللہ تو ہی ہماری اس دعا کو قبول فرما۔رَبِّ اجعَلنِی مُقِیمَ الصَّلٰوةِ وَمِن ذُ رِّ یَّتِی رَبَّنَا وَ تَقَبَّل دُعَآئِ (سورئہ ابراہیم آیت نمبر 40 )

Wednesday 16 April 2014

ماں سے بدسلوکی پر اللہ کا غضب (تحریر: ڈاکٹر عبدالغنی فاروق)

 
تقریباً چار سا ل قبل کی بات ہے ، میں ایک تقریب میں شمولیت کے لیے گا ﺅں گیا تو ایک لمبے عرصے کے بعد گلزار سے ملاقات ہو ئی ۔ وہ ہمارے گا ﺅں کے قریب ہی دوسرے گا ﺅں میں رہتا تھا اور میرا سکول فیلو تھا ۔ وہ دوسال مجھ سے پیچھے تھا۔ پڑھائی میں بہت پھسڈی تھا۔ کھیل کو د اور آوارگی میں مگن رہتا تھا ۔ اس لئے بار بار فیل ہوتا رہا اور آٹھویں میں تھا جب آخرکار رسی تڑا کر بھا گ گیا اور جا کر فوج میں سپاہی بھر تی ہو گیا ۔ اس کی افتادِ طبع کے پیش نظر کوئی اور کام کرنا شاید اس کے بس کی بات بھی نہ تھی اور پھر پچیس تیس سال گزر گئے۔ ہمارا آمنا سامنا نہ ہوا ۔ ایک بار سنا کہ گلزار نے فو ج سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے اور کویت چلا گیا ہے ۔ حالانکہ اسکو ل کے زمانے میں بھی میری گلزار سے بے تکلفی نہیں رہی تھی پھر بھی فطر ی طور پر ایک طویل مدت کے بعد اسے دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ اس کے اطوار میں غرور اور تکبر کا اندا ز نمایاں تھا شاید اس لیے کہ وہ خاصا امیر ہو گیا تھا ۔ اس نے گر دن بلند کر کے بتایا کہ اس نے کویت سے بہت پیسہ کمایا ہے ۔ وہ اپنے بڑے بیٹے کو بھی وہیں لے گیا تھا ۔ اس نے تین حج کئے ہیں اور اب گاﺅں میں اس نے شاندار مکان تعمیر کیا ہے ۔ میں نے بال بچوں کا پو چھا تووہ ایک دم افسر دہ ہو گیا۔ اس کی گر دن کا تنا ﺅ کم ہو گیا اور چہرے پر خزاں و ملال کی پر چھا ئیاں گہری ہو گئیں۔ بولا: میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے لیکن اولا د کے حوالے سے میری تقدیر بہت بری ثابت ہوئی ہے ۔ میرے استفسار پر اس نے بتا یا : ” دو سال پہلے میں نے بڑے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے کی ۔ گیا رہ لاکھ روپیہ خر چ کر دیا۔ پچا س ہزار توصرف آتش بازی پر .... لیکن “ اس نے بہت لمبی اور ٹھندی آہ کھینچی ” لیکن دلہن بس ایک ہی را ت میرے گھر میں رہی، دوسرے دن ولیمہ تھا۔ دو ر و نزدیک سب رشتہ دار اور ساری برادری جمع تھی ، دلہن کے والدین بھی ولیمے میں آئے ہوئے تھے۔ رواج کے مطابق شام کو وہ دلہن کو اور میرے بیٹے کو ساتھ لے گئے اور دوسرے روزدلہن نے اعلا ن کر دیا کہ میں دوبارہ سسرالی گھر میںنہیں جا ﺅں گی ۔ اس کا کہنا تھا کہ لڑکا بالکل بے کا ر ہے، اس میں مردانگی کا جوہرہی نہیں ہے۔ “ گلزار نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا : ” ڈاکٹر صاحب یہ خبر ہمارے لئے قیامت سے کم نہ تھی ۔ میرا سب کچھ لٹ گیا، میں بر باد ہو گیا اور رشتے داروں اور برادری میں تقسیم کے لئے جو میں نے منوں مٹھائی تیار کرائی تھی ، وہ میں نے نہر میں پھینک دی ۔ میں اور میرا بیٹاکسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے اور پھر میری بہو نے آنے سے انکار کر دیا ۔ میرا عزم تھا کہ خوا ہ کچھ ہو جائے میری بہو کو لا زماً میرے ہی گھر میں زندگی گزارنی چاہئے ۔ وہ میرے بیٹے کی منکوحہ ہے ، اب اس کا کسی دوسرے گھر میں جا نا گویا میری موت کے برابر ہے ۔ “ کیونکہ بہو جو بات کہہ رہی تھی ، وہ بات نہیں تھی ڈاکٹر صاحب “ گلزار نے زور دے کر کہا ” حقیقت یہ تھی اور میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتاہوں کہ میری بہو اچھے کر دار کی مالک نہ تھی ۔ وہ پولیس میںملا زم تھی اور خاصی تجر بہ کا ر تھی جبکہ میرا بیٹا سیدھا سادھا بھولا بھالا نوجوان تھا۔ اصل با ت یہ تھی کہ وہ پچاس تولے ہضم کرنا چاہتے تھے ۔ میرا سمدھی بھی آزاد خیال آدمی تھا، اس کی شہر ت اچھی نہ تھی ۔ چنانچہ اس نے طلا ق کا مقدمہ دائر کر دیا اور پھر میں نے بھی اسے خو ب چکر دئیے ، خوب ذلیل کیا ۔ ڈیڑھ سال مقدمہ چلا اور جب وہ میرا سونا واپس کرنے پر آمادہ ہوا تو میں نے ناک کی لکیریں نکلو ا کر طلا ق دلا دی ۔ لیکن بھائی عبدالغنی ! ہائے میری قسمت ، ہا ئے میرے نصیب کہ اس کے بعد میں نے بیٹی کی شادی کی ۔ وہ آپ کے گا ﺅں میں اکبر کے بیٹے کے ساتھ ۔ میں نے اتنا جہیز دیا۔ اتنا جہیز دیا کہ اس کے علا قے میں کسی نے اپنے بیٹی کو نہیں دیا ہو گا ۔ صوفہ سیٹ ، بیڈ ، ڈائنگ سیٹ، فریج ، ٹی وی ، سٹیل کے برتن، پلا سٹک کے برتن، چینی کے برتن ، میں نے اپنی سمدھن کو بھی سونے کا ایک سیٹ دیا ۔ داماد کے سارے خاندان کو ولا یتی قیمتی سوٹوں سے لا د دیا اور بارات کی اتنی تواضع کی کہ دھوم مچ گئی ۔ داماد کو میں اپنے ساتھ کویت لے گیا ۔ وہاں اسے بڑی اچھی نوکر ی دلا دی ۔ لیکن ہائے میرا داماد بڑا ہی کمینہ اور احسان فراموش ثابت ہوا۔ اس نے معمولی سی رنجش پر پہلے میرے بیٹے کے ساتھ جھگڑا کیا ، میں نے سمجھا نے کی کو شش کی تو مجھ سے بدتمیزی کی ، میرا گریبان پکڑ لیا اور پھر بدبخت نے کھڑے کھڑے میری بیٹی کو تین طلا قیں دے دیں اور پھر گلزار جذباتی ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب ، یہ تقدیر کیا ہے؟ یہ اتنی ظالم اور بے رحم کیوں ہے ؟ میں نے تین حج کئے ہوئے ہیں ، پھر میرے ساتھ یہ ظلم کیوں ہوا؟ میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا، میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے ؟ میں اس کا ہا تھ پکڑ لیا، اسے دلا سہ دینے لگا ۔حوصلہ اور صبر کی بات کی اورمو ضوع بدلنے کی خاطر پو چھا: ” گلزار بھائی ، آپ کے والد اور والدہ کس حال میں ہیں ؟ آپ نے اُ ن کی خدمت تو خو ب کی ہوگی ۔ “ میرے اس سوال پر گلزار کا موڈ یک دم بدل گیا ۔ اس نے رو تے روتے آنکھیں صاف کیں ، سنبھل کر بیٹھ گیا اور غصے میں بولا ۔ ” میرے ماں با پ مر کھپ گئے ہیں۔ انہوں نے میرے لئے کچھ نہیں کیا ، بس بد دعا ئیں دیتے رہے اور آج میں انہی کی بد دعاﺅں کی نحوست میں گھرا ہوا ہوں ۔ “ میں گلزار کے انداز ِ تکلم پر بھونچکا رہ گیا اور حیرت سے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔ ” آپ کو حیرت ہے کہ میں اپنے والدین کے خلا ف اس طر ح کی با تیں کیوں کر رہا ہوں ۔حقیقت ہے کہ انہوں نے میرے لئے کچھ نہیں کیا ۔ انہوں نے میری تعلیم کے لئے کچھ نہیں کیا، ورنہ کیا میں بھی اتنی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا تھا جتنی آپ کی ہے ؟ آخر آپ کے ماں با پ نے بھی تو کو شش کی او ر آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی ۔ پھر میں نے اپنی زندگی کے لئے جو کچھ کیا ، خود کیا ۔ فوج میں نوکری کی ، پھر کویت چلا گیا ، بہت پیسہ کمایا ، مکان بنایا، لیکن میرے ماں باپ مجھ سے راضی نہ ہوئے ۔ وہ میری بیوی سے بھی مسلسل لڑتے رہے اور مجھے بد دعائیں دیتے رہے ۔ “ گلزار کی تباہی نے مجھے بہت افسر دہ اور پریشان کر دیا اور میں کمرے سے اٹھ کر باہر چلا گیا ۔ بعد میں مجھے واقفِ حال لو گوں سے پتہ چلا کہ گلزار نے اپنے ماں با پ سے بہت ہی برا سلوک روا رکھا تھا۔ اس نے کویت جا کر بہت کمائی کی ، لیکن والدین پر معمولی سا بھی خر چ نہ کیا۔ اس کی بیوی بڑی ہی بد اخلا ق اور جھگڑالو عورت تھی اور اس نے ساس سسر کا جینا حرام کر دیا ، حتی کہ یہ الگ مکان بنا کر وہاں منتقل ہو گئے ، لیکن والدین اپنے پرانے کچے مکا ن میں مقیم رہے ۔ گلزار کے والدین کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ گرمیوں کی ایک دوپہر کو سخت دھوپ میں اس کی بوڑھی ماں کھلی چھت پر بنے ہوئے تنور میں روٹیاں پکا رہی تھی کہ اسے چکر آیا ۔ چھت سے نیچے گر گئی اور دم توڑ گئی ۔ یہ ظالم ان دنوں کویت میں تھا ۔ اس نے ماں کے جنازے میں شمولیت کرنے کی زحمت بھی نہ کی ۔ با پ بھی اس حادثے کے بعدکچھ عرصہ زندہ رہا اور فوت ہو گیا اور اس کے جنازے میں بھی بد نصیب شامل نہ ہوا۔ گلزار کی بے حسی اور زن مریدی کا یہ عالم تھا ۔ ایک چشم دید خاتون نے بتایا کہ ایک بار گلزار کویت سے حج کے لئے گیا اور وہاں سے پا کستا ن آیا ۔ ماں کو پتہ چلا کہ بیٹا حج کر کے آیا ہے ۔ تو وہ محبت اور اشتیا ق سے اسے ملنے کے لئے گئی ۔ گلزار نے ایک جانماز اٹھا یا اور ماں کو پیش کیا ۔ بیوی قریب بیٹھی تھی ، وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور اس نے جھپٹ کر جانماز اپنی ساس کے ہا تھ سے چھین لیا۔ ” میں تمہاری ماں کو مصلیٰ نہیں دوں گی ۔ “ بیوی نے کہا اور ماں آنسو بہاتی بیٹے کے گھر سے اٹھ کر آگئی ۔ گلزار کو جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنی بیوی کو اس سفا کی پر ڈانٹتا اور ماں کو راضی کرتا، وہ بے غیرت خامو ش بیٹھا رہا۔ ساری بات میری سمجھ میں آگئی ۔ اس صورتِ حال میں اللہ کا غضب گلزار پر کیوں نہ ٹوٹتا ، اس کے ہر کا م میں بگاڑ کیوں پید ا نہ ہوتا اور ہر معاملے میں اسے ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کر نا پڑتا ؟ لیکن شامت ِ اعمال نے گلزار کا اب تک پیچھا نہیں چھوڑا ،اس نے والدین کے ساتھ جس بے حسی اور شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ کیا تھا، وہ اب تک اس کے وبال میں مبتلا ہے ، چنانچہ اس نے دو سال قبل اپنے بڑے بیٹے کی دوبارہ شادی کی ، لیکن چونکہ بیٹا جنسی اعتبار سے واقعتا ناکا رہ تھا ، اس لئے گھر میں ایک عجیب و غریب ، نا گفتی صورتِ حال پیدا ہو گئی ۔ گلزار گزشتہ چند سالوں سے کویت کی ملا ز مت ترک کر کے مستقلاً گاﺅں میں رہتا ہے ۔ بیٹے کی شادی ہوئی تو وہ اپنی ناکا می کا اعتراف کر کے کو یت چلا گیا ۔ گھر میں جوان بہو تھی اور گلزار کسی اخلا قی ضابطے کا پابند نہ تھا ، چنا نچہ فضا اب ایسی بن گئی کہ گلزار کی اپنی بیوی سے تند و تیز جنگ شروع ہوگئی اور اب اس جنگ نے ایسے المیے کی صورت اختیار کر لی ہے کہ اس پر چشم عبرت رکھنے والا کوئی فرد بھی کا نپ کا نپ اٹھتا ہے ۔ میاں بیوی میں روز ہی لڑائی ہوتی ہے۔ اور یہ لڑائی اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ گلزار بیوی کو چھڑی سے مار تا ہو ا اور تعاقب کر تا ہو اباہر گلی میں آجا تا ہے ۔ وہ بیوی جس نے اپنے ساس کے ہاتھ سے مصلیٰ چھین لیا تھا، اب بال کھولے ، خستہ حال، چےخ پکا رکرتی ہوئی باہر گلی میں بھا گ رہی ہوتی ہے۔ وہ بہو کے حوالے سے گلزاز پر کھلے بندوں الزام لگاتی ہے اور گلزار اس کی پٹائی کر تا ہوا اس کا پیچھا کر رہا ہو تا ہے ۔ وہ بھی جنونیوں کی طر ح چےختا ہے لو گو میری بیوی پاگل ہوگئی ہے ، اس لئے میں اس کو ماررہا ہوں ، آﺅ تم بھی اسے مارو تاکہ اس کا دما غ ٹھیک ہو جائے ۔ “ اور یہ درد ناک اور عبرت ناک سلسلہ بڑی دیر سے جاری ہے۔ گلزار کی زندگی کتوں سے بدتر ہو گئی ہے اس کی عزت خاک میں مل گئی ہے ، کوئی اس سے بات نہیںکرتا ، اس کے پاس بیٹھنا پسند نہیں کر تا اور تب مجھے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یا د آتی ہے جو صحیح مسلم میں شا مل ہے۔ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے ” وہ آدمی ذلیل ہو، وہ خوار ہو ، وہ رسوا ہو جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھا پے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کر کے اور انہیں خوش کر کے جنت حاصل نہ کرے۔“ ( بحوالہ معارف الحدیث جلد ششم) ظاہر ہے جس شخص کے حق میں حضور ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم بد دعا کریں، وہ گلزار کی طر ح ذلیل و خوار نہ ہو تو اور کیا ہو؟

حسین عورت کو دیکھ کر بے ہوش ہو گیا (مومن خان عثمانی)

  
(دنیا اور آخرت کے چشم دید انوکھے سچے واقعات مجموعہ جو دل کی اجڑی ویران دنیا کو بدل دیتے ہیں) حضرت یحییٰ بن ایوب خزاعی سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک پرہیز گار جوان تھا، وہ مسجد میں گوشہ نشین رہتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وہ شخص بہت پسند تھا۔ اس جوان کا بوڑھا باپ زندہ تھا اور وہ شخص عشاءکے بعد اپنے بوڑھے باپ سے ملنے روزانہ جایا کرتا تھا۔ راستہ میں ایک عورت کا مکان تھا، وہ اس جوان پر فریفتہ ہو گئی اور بہکانے لگی، روزانہ دروازے پر کھڑی رہتی اور جوان کو دیکھ کر بہکایا کرتی۔ ایک رات اس شخص کا گزر ہوا تو اس عورت نے بہکانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ شخص اس کے پیچھے ہو گیا،جب وہ اس عورت کے دروازے پر پہنچا تو پہلے عورت اپنے مکان میں داخل ہو گئی پھر یہ شخص بھی داخل ہو نے لگا، اچانک اس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور یہ آیت اس کی زبان سے بے ساختہ جاری ہو گئی ۔ ”اِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوا اِذَا مَسَّھُم طَائِف مِّنَ الشَّیطَانِ تَذَکَّرُوا فَاِذَا ھُم مُبصِرُونَ (اعراف201) ”بے شک جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں جب انہیں شیطان چھوتا ہے وہ چونک جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔“ اور پھر غش کھا کر وہیں دروازے پر گر پڑا۔ اندر سے عورت آئی، یہ دیکھ کر کہ جوان اس کے دروازے پر بے ہوش پڑا ہے، اس کو اپنے اوپر الزام آنے کا اندیشہ ہوا۔ چنانچہ اس نے اپنی ایک لونڈی کی مدد سے اس جوان مرد کو وہاںسے اٹھا کر اس کے دروازے پر ڈال دیا۔ ادھر بوڑھا باپ اپنے لڑکے کی آمد کا منتظر تھا، جب بہت دیر تک وہ نہ آیا تو اس کی تلاش میں گھر سے نکلا، دیکھا کہ دروازے پر بے ہوش پڑا ہے۔ بوڑھے نے اپنے گھر والوں کو بلایا، وہ اس کو اٹھا کر اپنے گھر کے اندر لے گئے۔ رات کو وہ جوان ہوش میں آیا۔ باپ نے پوچھا بیٹا! تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے جواب دیا، خیریت ہے۔ باپ نے واقعہ کی حقیقت دریافت کی تو اس نے پورا واقعہ بیان کر دیا،پھر باپ نے پوچھا وہ کون سی آیت تھی جو تو نے پڑھی تھی؟ یہ سن کر بیٹے نے مذکورہ بالا آیت پڑھ کر سنا دی اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑا، اس کو ہلایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مر چکا ہے، چنانچہ رات ہی کو دفن کر دیا گیا۔ جب صبح ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے انتقال کی خبرملی تو مرحوم کے بوڑھے باپ کے پاس تعزیت کیلئے گئے، تعزیت کے بعد شکایت کی کہ مجھے خبر کیوں نہ دی۔ اس نے کہا امیر المومنین!رات ہونے کی وجہ سے اطلاع نہ دے سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔ قبر پر جا کر فرمایا، اے شخص وَلِمَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ ”اور اس شخص کیلئے جو خدا سے ڈرتا ہے دو باغ ہیں“(الرحمن) اس شخص نے قبر کے اندر سے جواب دیا۔ یَا عُمَرُ قَد اَعطَانِیھَا رَبِّی فِی الجَنَّةِ۔”اے عمر اللہ نے مجھے دونوں جنتیں دے دی ہیں۔“ (ابن عساکر ،موت کا جھٹکا367)