Tuesday, 30 July 2013
Thursday, 25 July 2013
Wednesday, 24 July 2013
دنیا کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی
سرکارِ
دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی
عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت
ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار
تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان
میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت
میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے
انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے
ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
سرکار صلی
اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم
کیا کہ واقعتا ایسا
ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا
درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر
دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس
نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک
عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال
تک چلتا رہے گا۔
دُنیا
کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو
سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی
سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے
جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع
کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے
انکار کردیا۔
مجلس
میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ
درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔
ابا
الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو
جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا
شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس
کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں
اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔
مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور
خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔
ابالداحداح
نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے
ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں
فروخت کرتے ہو؟
اُس
شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ
ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ
بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما
نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔
ابالداحداح
نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم
کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل
کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے
تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا
پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے
تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے
درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے
ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی
اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے
کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔
ابالداحداح
وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر
کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ،
محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔
بیوی
اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس
نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟
ابالداحداح
نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک
درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔
ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔
****
دنیا
کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دُنیا میں اُٹھائی گئی تھوڑی سی
مشقت کے بدلے کی آخرت کی راحت۔۔۔۔ کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟؟؟ زندگی
کی سمت متعین کرنے کیلئے آپ سوچیئے گا ضرور۔۔۔
Tuesday, 23 July 2013
Tuesday, 16 July 2013
Madrid-Puerta De Atocha Railway Station — Spain
Madrid Atocha (Spanish: Estación de Madrid Atocha, also named Madrid
Puerta de Atocha) is the largest railway station in Madrid. It is the
primary station serving commuter trains (Cercanías), intercity and
regional trains from the south, and the AVE high speed trains from
Barcelona (Catalonia), Saragosse (Aragon), Seville (Andalusia) and
Valencia (Levante Region). These train services are run by the Spanish
national rail company, Renfe. The station is in the Atocha neighborhood
of the district of Arganzuela. The original façade faces the Plaza del
Emperador Carlos V, a site at which a variety of streets converge,
including the Calle de Atocha, Paseo del Prado, Paseo de la Infanta
Isabel, Avenida de la Ciudad de Barcelona, Calle de Méndez Álvaro, Paseo
de las Delicias, Paseo de Santa María de la Cabeza, and Ronda de
Atocha.
Photo — Link
The Atocha station is really a railway complex, formed by the Madrid
Atocha Cercanías and Madrid Puerta de Atocha stations of the Spanish
national railways and the Atocha Renfe station of the Madrid
underground. 11 more images after the break...
Photo — Link
History — At this site, Madrid's first railway station was inaugurated
on 9 February 1851 under the name Estación de Mediodía (Atocha-Mediodía
is now the name of an area of the Arganzuela district, and means south
in old Spanish). After the building was largely destroyed by fire, it
was rebuilt and reopened in 1892. The architect for the replacement, in a
wrought iron renewal style was Alberto de Palacio Elissagne, who
collaborated with Gustave Eiffel. Engineer Henry Saint James also took
part in the project. The name Atocha has become attached to the station
because of the nearby basilica dedicated to Our Lady of Atocha. The
train platforms were partly covered by a roof in the form of inverted
hull with a height of approximately 27 meters and length of 157 meters.
The steel and glass roof spreads between two brick flanking buildings.
Photo — Link
This complex of railway tracks expanded through the years. In 1985, a
project of complete remodeling began, based on designs by Rafael Moneo.
In 1992, the original building was taken out of service as a terminal,
and converted into a concourse with shops, cafés, and a nightclub. Like
the Orsay Museum in Paris, the concourse has been given a new function,
this time a stunning 4,000 m2 (43,056 sq ft) covered tropical garden.
A modern terminal was also designed by Moneo, and built in adjacent land
to serve both the new AVE trains and local commuter lines. The main
lines end in the new terminal; commuter train platforms are located
underground, at the ingress to a rail tunnel extending northward under
the Paseo de la Castellana. The station is served by two Madrid Metro
stations, Atocha and Atocha Renfe. The latter was added when the new
terminal building was constructed and is directly linked to the railway
station.
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Akhmad Kadyrov Mosque in Grozny — Chechnya
Photo — Link
The Akhmad Kadyrov Mosque
(Russian — Mechet Akhmata Kadyrova) is located in Grozny, the capital
of Chechnya. It is one of the largest mosques in Russia and is
officially known as the "The Heart of Chechnya" , Russian — Serdtse
Chechni). The mosque is named after Akhmad Kadyrov who commissioned its
construction from the mayor of Konya. The mosque design with a set of
62-metre (203 ft)-tall minarets is based on the Blue Mosque in Istanbul.
On October 16, 2008, the mosque was officially opened in a ceremony in
which Chechen leader Ramzan Kadyrov spoke and was with Russian Prime
Minister Vladimir Putin. In this mosque, ten thousand Muslims can pray
at a time and its minarets reach 62 metres (203 ft) high. 21 more images after the break...
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Photo — Link
Subscribe to:
Posts (Atom)